یتنال بی جے پی سے باہر
مگر کیا نفرت کی سیاست ختم ہوگی؟
بنگلور ۔( حقیقت ٹائمز)
مسلمانوں کے خلاف متنازع بیانات، وقف املاک پر حملے اور پارٹی قیادت سے ٹکراؤ – یتنال کی چھ سالہ معطلی کا پس منظر
کرناٹک میں بی جے پی کے سینئر رہنما اور وجئے پورہ کے ایم ایل اے بسناگوڑا پاٹل یتنال کو پارٹی نے چھ سال کے لیے معطل کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب وہ مسلسل بی جے پی قیادت پر تنقید کر رہے تھے، مگر ان کی معطلی کو صرف اندرونی سیاست کا نتیجہ سمجھنا درست نہیں ہوگا۔ یتنال کی شناخت صرف ایک ناراض لیڈر کی نہیں بلکہ ایک ایسے سیاستدان کی رہی ہے جو کھلے عام مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے رہے، وقف املاک کو نشانہ بناتے رہے اور اشتعال انگیز بیانات سے فرقہ واریت کو ہوا دیتے رہے۔ان کی معطلی کو بی جے پی کے اندرونی نظم و ضبط کی بحالی کا اقدام کہا جا رہا ہے، لیکن یہ فیصلہ یتنال کی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم، وقف املاک پر حملے، اور اشتعال انگیز بیانات کے پس منظر میں بھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔
:مسلمانوں کے خلاف بیانات، نفرت انگیز مہم
یتنال کا سیاسی سفر متنازع بیانات سے بھرا پڑا ہے۔ انہوں نے کئی مواقع پر مسلمانوں کے خلاف سخت موقف اپنایا، یہاں تک کہ کھلے عام کہا کہ وہ مسلمانوں کے کسی بھی ترقیاتی کام کی حمایت نہیں کریں گے۔ ان کے بیانات کا خلاصہ یہی تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جائے اور انہیں سیاسی، سماجی اور اقتصادی طور پر کمزور کیا جائے۔انہوں نے مسلم ووٹوں کی کھل کر مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں اور وہ صرف ہندو ووٹوں پر انحصار کریں گے۔ یہ بیان بی جے پی کی خاموش حمایت سے دیا گیا تھا، کیونکہ اس پر پارٹی نے کوئی خاص کارروائی نہیں کی۔یتنال صرف زبانی حملے تک محدود نہیں رہے بلکہ انہوں نے وقف املاک کے خلاف بھی محاذ کھولا۔ انہوں نے "وقف ہٹاؤ، دیش بچاؤ" کے نعرے کے تحت وقف املاک کو سرکاری کنٹرول میں لینے کی بات کی، جو درحقیقت مسلمانوں کی دینی و تعلیمی اثاثوں کو ختم کرنے کی ایک منظم سازش کا حصہ معلوم ہوتی تھی۔یتنال ایک عرصے سے مسلمانوں کے خلاف سخت گیر بیانات دیتے آ رہے ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں انہوں نے کہا تھا کہ "میں نے اپنے کارپوریٹروں کو کہا ہے کہ مسلمانوں کے کوئی بھی ترقیاتی کام نہ کریں، میں ان کی خدمت نہیں کروں گا۔"ان کے مطابق "مجھے مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں، وہ دیں یا نہ دیں، میں صرف ہندوؤں کی ترقی کے لیے کام کروں گا۔" انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ "وجئے پورہ میں ٹیپو سلطان کے پیروکاروں کے لیے کوئی جگہ نہیں، ہم انہیں سیاست سے باہر نکالیں گے۔"
بی جے پی قیادت سے ٹکراؤ اور معطلی
مسلمانوں کے خلاف مہم کے علاوہ، بی جے پی قیادت کے خلاف بھی کھلے عام بیانات دیتے رہے۔ انہوں نے سابق وزیر اعلیٰ بی ایس یدی یورپا اور موجودہ ریاستی صدر بی وائی وجیندر پر کرپشن کے الزامات لگائے، جس کے بعد پارٹی نے انہیں وارننگ دی، لیکن وہ باز نہ آئے۔ان کے بیانات نے پارٹی کے اندرونی اختلافات کو مزید گہرا کر دیا، جس پر بی جے پی نے پہلے انہیں کئی بار وارننگ دی، لیکن وہ باز نہ آئے۔آخر کار، پارٹی قیادت نے انہیں چھ سال کے لیے معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ معطلی اس بات کا ثبوت ہے کہ کرناٹک میں بی جے پی کے اندرونی اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں اور پارٹی کسی بھی باغی آواز کو خاموش کرنے کے لیے تیار ہے۔
مسلمانوں کا ردعمل
یتنال کی معطلی پر مسلم برادری محتاط ردعمل دے رہی ہے۔ ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ ان کی معطلی ضروری تھی، لیکن دوسری طرف یہ بھی سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ بی جے پی نے انہیں ان کے مسلم مخالف بیانات پر نہیں بلکہ اندرونی سیاست کی وجہ سے معطل کیا ہے۔مسلم رہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ یتنال پر قانونی کارروائی بھی ہونی چاہیے، کیونکہ انہوں نے مسلسل مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کو فروغ دیا۔ ان کے بیانات نے کئی مرتبہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دی اور یہ معاملہ صرف پارٹی معطلی سے حل نہیں ہوگا۔یتنال کی معطلی پر مسلم برادری نے محتاط ردعمل دیا ہے۔معروف عالم مولانا شبیر احمد ندوی (مسلم پرسنل لا بورڈ) نے سوال کیا کہ"بی جے پی نے یتنال کو معطل تو کر دیا، لیکن کیا پارٹی ان کے مسلم مخالف بیانات کی مذمت کرے گی؟" معروف وکیل ایم ایم انور کا ماننا ہے کہ "یتنال کی معطلی صرف ایک سیاسی چال لگ رہی ہے، انہیں قانونی طور پر بھی جواب دہ ہونا چاہیے۔"
کیا قربانی کا بکرا بنایا گیا؟
یتنال کی معطلی اگرچہ بی جے پی کے اندرونی مسائل کی وجہ سے ہوئی ہے، لیکن یہ سوال ابھی باقی ہے کہ کیا بی جے پی مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے دیگر رہنماؤں پر بھی کارروائی کرے گی؟اب یتنال کی معطلی اگرچہ ایک بڑا قدم لگتی ہے، لیکن یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ کیا بی جے پی واقعی نفرت کی سیاست کو روکنے میں سنجیدہ ہے؟ کیونکہ یتنال جیسے رہنما پارٹی میں اکیلے نہیں ہیں، بلکہ کئی دیگر سیاستدان بھی اسی نظریے پر چل رہے ہیں۔ اگر بی جے پی واقعی فرقہ وارانہ سیاست کو ختم کرنا چاہتی ہے، تو اسے صرف معطلی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ یتنال جیسے سیاستدانوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی بھی کرنی چاہیے۔
ورنہ یہ سوال ہمیشہ باقی رہے گا کہ یتنال ۔توگئے، مگر نفرت کی سیاست کب ختم ہوگی