محمد اعظم شاہد کی مسافتِ کالم نگاری کے چودہ برس
ایک ناتمام جائزہ
ڈاکٹر انیس صدیقی
اردو صحافت کے افق پر ایک روشن ستارے کی مانند تابندہ، اپنے فکر انگیز اور بصیرت افروز کالموں سے قارئین کے دلوں میں گھر کرنے والے ممتاز صحافی و کالم نویس محمد اعظم شاہد کا مقبول عام ہفتہ وار 'عکس در عکس' اس چہارشنبہ کو ایک سنگ میل عبور کر گیا۔ سات سویں قسط کے ساتھ اس کالم نے اپنی اشاعت کے پندرہویں سال میں قدم رکھا ہے۔ یہ کالم محض ایک کالم کا طویل سفر نہیں، بلکہ عہدِ حاضر کے شورش زدہ اور تیز رفتار زمانے میں، کسی فکری سلسلے کا اتنی پائیداری اور باقاعدگی کے ساتھ اپنی شناخت برقرار رکھنا ایک نادر و نایاب منظر ہے۔ یہ ایک ایسی مسلسل رواں دواں فکری ندی ہے، جس نے پندرہ برسوں سے اپنے قاریوں کو سیراب کیا ہے، انھیں غور و فکر پر آمادہ کیا ہے اور معاشرے کے پیچیدہ مسائل کی یکسوئی میں رہنمائی کی ہے۔
محمد اعظم شاہد کے قلم سے نکلا ہوا ہر کالم، تجربے اور مشاہدے کی گہرائی میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔ ان کے کالم محض خبروں اور تبصروں کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ ایک دانشور کی بصیرت، ایک حساس دل کی دھڑکن اور ایک درد مند سماجی مبصر کی فکر کا عکاس ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کالموں نے ایک وسیع حلقۂ قارئین میں مقبولیت اور اعتبار کی سند حاصل کی ہے۔
اس طویل اور مسلسل اشاعت کے ساتھ، محمد اعظم شاہد نے اردو صحافت میں ایک ایسی مثال قائم کی ہے، جو یقیناً آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی۔ یہ ایک ایسے قلم کی استقامت اور لگن کی داستان ہے، جس نے حالات کی تندی و تیزی کے باوجود اپنے قاریوں سے اپنا رشتہ برقرار رکھا اور انھیں فکری غذا فراہم کرتا رہا۔ بلاشبہ، یہ کارنامہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک عدیم المثال حیثیت رکھتا ہے اور اردو صحافت کے لیے ایک قابل فخر لمحہ ہے۔
محمد اعظم شاہد، 28 اکتوبر 1959 کو کولار (کرناٹک) کے ایک علم و ادب سے روشن اور باوقار گھرانے میں چشمِ ہستی وا ہوئے، انھوں نے اپنی ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم آبائی وطن کی درسگاہوں میں حاصل کی۔ ان کی علمی تشنگی نے انھیں بنگلور یونیورسٹی تک پہنچایا، جہاں انھوں نے اکنامکس اور اردو ادبیات میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہوئے پوسٹ گریجویشن کی سند اپنے نام کی۔ سنہ 1982 میں انھوں نے درس و تدریس کے مقدس پیشے سے منسلک ہوکر اکنامکس کے لکچرر کی حیثیت سے اپنی علمی سفر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ سال 2020 میں، بحیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر، اپنی طویل اور قابل قدر خدمات کے بعد سبک دوش ہوئے۔ سرکاری ملازمت کے دوران، انھوں نے تقریباً تیرہ برس کرناٹک سرکار کے ریاستی انتظامیہ کے مختلف کلیدی عہدوں پر بھی اپنی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
گھر کے علمی و ادبی ماحول اور اسکول میں اساتذہ کی شفقت آمیز رہنمائی نے محمد اعظم شاہد کے فطری ادبی ذوق اور صحافت سے ان کی گہری دلچسپی کو پروان چڑھایا۔ چنانچہ، زمانۂ طالب علمی ہی سے ان کا قلم اور قرطاس سے ایک مضبوط رشتہ استوار ہو گیا۔ ان کے صحافتی سفر کا پہلا پڑاؤ بنگلور کا ایک معتبر اور مقبول اردو روزنامہ 'سالار' بنا، جس کے صفحات پر ان کی فکر انگیز صحافتی تحریریں مسلسل جلوہ گر ہوتی رہیں۔ اس کے علاوہ، بنگلور اور اس کے اطراف کے تمام اہم اردو اخبارات و رسائل نے بھی ان کے بصیرت افروز سیاسی، سماجی اور ملی مسائل پر مبنی تجزیاتی مضامین، فیچرز اور انٹرویوز کو اپنی زینت بنایا اور انھیں خصوصی اہمیت دی۔ ان کی صحافتی زندگی کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ انہیں زندگی کے مختلف شعبوں کی نامور اور ممتاز شخصیات کے انٹرویو لینے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔
طباعتی صحافت کے وسیع میدان کے ساتھ ساتھ، محمد اعظم شاہد کا الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سے بھی گہری وابستگی رہی ہے۔ ریڈیو، دور درشن، ٹی وی اور مختلف یوٹیوب چینلز کے لیے انھوں نے ایک تجربہ کار انٹرویو کار اور عصری و اہم مسائل پر ہونے والے مباحثوں میں ایک باوثوق ماہر کی حیثیت سے اپنی شناخت بنائی ہے۔ ان کا نام اور کام ان ذرائع ابلاغ میں بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔
دنیائے اردو صحافت کے وسیع منظرنامے پر محمد اعظم شاہد کی بلند و بالا اور ہمہ جہت صحافتی مساعی میں، جو درخشاں ترین ستارہ جگمگا رہا ہے، وہ ان کا ہفتہ وار کالم 'عکس در عکس' ہے۔ یہ وہ فکری نخلستان ہے، جو ہر ہفتے، روزنامہ 'سالار' بنگلور کے صفحات پر، چہارشنبہ کے روز اپنی تمام تر تابانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔ گویا یہ کالم محض چند سطور کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک آئینہ ہے، جس میں عصر حاضر کے مسائل، سماجی رویوں اور انسانی تجربات کے گہرے نقوش ثبت ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی روشن روایت ہے، جو ہر بار ایک نئی فکر کو جنم دیتی ہے اور قاری کے ذہن و قلب کو ایک نئی جلا بخشتی ہے۔
دو ہزار گیارہ کے ماہِ مئی کی وہ مبارک ساعتیں کس قدر سعید تھیں، جب محمد اعظم شاہد کے ذہن رسا نے ایک کالم کی ابتدا کا خیال کیا ہوگا۔ تب سے خامہ فرسائی کا یہ سلسلہ ایک طویل اور پر ثمر سفر طے کر چکا ہے۔ یہ کالم 'سالار' کے بعد ملک کے کئی معتبر اخبارات کی زینت بنتا ہے۔ مزید برآں گلبرگہ کا برقی مصور اخبار 'گھومتا آئینہ' بھی اسے 'دستک' کے دل نشین عنوان کے تحت اہتمام سے اپنے اوراق میں جگہ دیتا ہے۔ گزشتہ سال 'گھومتا آئینہ' کے زیر اہتمام ایک برس کی باون کالموں پر مشتمل دیدہ زیب کتاب 'دستک' ہی کے نام سے شائع ہو کر صحافتی دنیا سے تحسین و آفرین کی سند حاصل کرچکی ہے۔
محمد اعظم شاہد کے قلم سے تراوش شدہ سات سو کالم ایک ایسی دنیا کی سیر کراتے ہیں، جہاں موضوعات کی رنگا رنگی اور وسعت قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ یہ کالم محض سطحی خبروں یا واقعات کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ تو انسانی زندگی کے تمام تر پہلوؤں کا ایک جامع مرقع ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کالم نگار کی نظر ایک عقاب کی مانند ہے، جو بین الاقوامی افق سے لے کر قومی اور پھر مقامی سطح پر رونما ہونے والے ہر اہم واقعے کو اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ ان کالموں میں زندگی کی گہما گہمی، اس کی پیچیدگیاں، خوشیاں اور غم سبھی کچھ سمویا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مصنف نے ایک وسیع کینوس پر اپنی فکری اور قلمی صلاحیتوں کے رنگ بھرے ہیں، جس میں عالمی سیاست کی ہلچل بھی ہے، ملکی حالات کی عکاسی بھی اور پھر اپنے اردگرد کے معاشرے کی نبض بھی دھڑکتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ سات سو کالم دراصل ایک ایسی کھڑکی کی مانند ہیں جو ہمیں دنیا کے مختلف مناظر دکھاتی ہے۔ ان میں کہیں بین الاقوامی طاقتوں کی رسہ کشی کا ذکر ملتا ہے، تو کہیں قومی سطح پر ہونے والی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کا تجزیہ۔ اور پھر ان سے آگے بڑھ کر یہ کالم ہمیں اپنے قریبی ماحول، اپنے شہر اور ریاست میں پیش آنے والے واقعات پر بھی غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
محمد اعظم شاہد کا یہ قلمی سفر یقیناً ایک ایسا خزانہ ہے جس میں ہر ذوق کے قاری کے لیے کچھ نہ کچھ موجود ہے۔ ان کالموں کو پڑھنا گویا ایک ایسے دانشور کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کرنا ہے، جو دنیا کو ایک وسیع اور گہری نظر سے دیکھتا ہے اور پھر اپنے خیالات کو دلنشین انداز میں بیان کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ یہ سات سو کالم ایک زندہ دستاویز ہیں، جو نہ صرف اپنے دور کی کہانی بیان کرتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی بصیرت اور آگہی کا ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوں گے۔ ان کالموں کی موضوعاتی وسعت اور مصنف کی گہری نظر بلاشبہ ایک ایسی چیز ہے جو قاری کو مسرت اور حیرت کے ایک منفرد احساس سے سرشار کرتی ہے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ محمد اعظم شاہد کے کالموں کا موضوعاتی کینوس اس قدر وسیع اور رنگارنگ ہے کہ اس کی تمام تر جزئیات کا احاطہ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ سیاست کی پرپیچ راہوں سے لے کر سماج کے نشیب و فراز تک، تعلیم کی روشنیوں سے لے کر تہذیب و ثقافت کے متنوع رنگوں تک، اور پھر فنون لطیفہ کی دلکشی سے لے کر فلم اور ٹیلی ویژن کی چکاچوند تک، کوئی ایسا شعبۂ حیات نہیں، جس پر ان کے قلم نے اپنی جولانیاں نہ دکھائی ہوں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی نظر ایک دوربین کی مانند ہے، جو زندگی کے ہر گوشے کا باریک بینی سے جائزہ لیتی ہے۔
تاہم، ان تمام متنوع موضوعات کے درمیان کچھ ایسے محور بھی ہیں جن کی جانب محمد اعظم شاہد کی توجہ بار بار مبذول ہوتی ہے اور جنھیں ان کے قلم نے خصوصی اہمیت بخشی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودہ صورت حال، ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت کا زہر، حکومتوں کا مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک، ملک میں جمہوری اقدار کی شکست و ریخت، آئین ہند کی عظمت و حرمت کا پاس، عام شہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی، تعلیمی نصاب کو ایک خاص رنگ میں رنگنے کی مذموم کوششیں، قانون شکنی، بے امنی اور افراتفری کا ماحول، ذرائع ابلاغ کا غیر منصفانہ رویہ، رشوت خوری کی وبا، کمر توڑ مہنگائی، قومی اتحاد و یکجہتی کی ضرورت، بھائی چارے اور محبت کے جذبات کو فروغ دینے کے خواب جیسے حساس موضوعات ان کے دل کے قریب رہے ہیں۔
ان اہم اور نازک مسائل پر محمد اعظم شاہد نے ہمیشہ بصیرت افروز اور چشم کشا کالم تحریر کیے ہیں۔ ان کی تحریر کی خاصیت یہ ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے جذباتی لگاؤ یا تعصب سے پاک ہوتی ہے۔ وہ غیر جانبداری کے ساتھ حالات کا تجزیہ کرتے ہیں اور حقائق کو واضح انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے کالم ایک روشن چراغ کی مانند ہیں، جو تاریک راہوں میں بھٹکتے ہوئے لوگوں کو درست سمت دکھاتے ہیں۔ ان کی تحریر میں دلیل کی قوت اور منطق کی سچائی ہوتی ہے، جو قاری کو نہ صرف سوچنے پر مجبور کرتی ہے بلکہ ایک باشعور شہری بننے کی ترغیب بھی دیتی ہے۔ یہ کہنا بجا ہے کہ محمد اعظم شاہد نے اپنے ان پسندیدہ موضوعات پر قلم اٹھا کر ایک اہم قومی فریضہ سرانجام دیا ہے اور اپنی صحافتی بصیرت کا لوہا منوایا ہے۔
محمد اعظم شاہد کی کالم نگاری کا اسلوب سادہ، واضح اور دلنشین ہے۔ وہ پیچیدہ اور ثقیل الفاظ سے گریز کرتے ہوئے سیدھی اور رواں زبان استعمال کرتے ہیں۔ ان کے افکار کسی پوشیدہ رمز یا گہرے استعارے کی گرد میں لپٹے ہوئے نہیں ہوتے؛ بلکہ روشن اور واضح انداز میں قاری کے ذہن پر نقش ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنی بات کو زوردار اور قائل کرنے والے انداز میں پیش کرتے ہیں، تاہم اس میں تصنع اور بناوٹ کے بجائے بےساختگی اور برجستگی نمایاں ہے۔
یہ امر قابلِ داد ہے کہ محمد اعظم شاہد اپنے کالموں کے لیے ایسے دلنشین اور بامعنی عنوانات کا انتخاب کرتے ہیں، جو نہ صرف قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتے ہیں بلکہ کالم کے موضوع کا بھی ایک واضح اشارہ دیتے ہیں۔ ان کے منتخب کردہ عنوانات اکثر اوقات اس فکری جوہر کی نمائندگی کرتے ہیں جس پر ان کا کالم استوار ہوتا ہے۔
ان کی تخلیقی اپج کا یہ انداز اس وقت اور بھی دلکش ہو جاتا ہے، جب وہ اپنے باطن کے احساسات اور خیالات کے اظہار کے لیے ضرب الامثال اور مشہور فلمی نغموں کے یادگار مصرعوں اور مکھڑوں کو اپنے کالموں کا عنوان بناتے ہیں۔ یہ انتخاب ان کے وسیع ادبی ذوق اور تہذیبی و ثقافتی شعور کا عکاس ہے۔
مثال کے طور پر، 'کس سے شکایت کریں، کس سے منصفی چاہیں' کا عنوان پڑھتے ہی ایک بے بسی اور عدل کی تلاش کا احساس جاگتا ہے۔ اسی طرح، 'گفتگو بند نہ ہو، بات سے بات چلے' ایک مثبت اور تعمیری فضا کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ عنوان، اختلاف رائے کے باوجود رابطے کو برقرار رکھنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
'تم رات لکھو، ہم چاند لکھیں گے' ایک شاعرانہ اور پرامید عنوان ہے، جو دو متضاد لیکن باہم مربوط عناصر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ تاریکی میں بھی روشنی کی امید، منفی حالات میں بھی مثبت پہلو تلاش کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ 'سچائی کی نہ ٹوٹے لڑی' صداقت کی اٹوٹ اہمیت اور اس کے دوام پر یقین کا اظہار ہے۔ اسی طرح 'سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے' ایک عالمگیر حقیقت کا بیان ہے۔ یہ عنوان اس بات پر زور دیتا ہے کہ جھوٹ اور فریب کے مصنوعی پردوں کے پیچھے سچائی اپنی آب و تاب کے ساتھ بالآخر ظاہر ہو کر رہتی ہے۔
مختصراً، محمد اعظم شاہد کے کالموں کے عنوانات محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ ان کے گہرے فکری اور جذباتی تجربات کا نچوڑ ہیں۔ ان کا یہ منفرد انداز نہ صرف قاری کو متوجہ کرتا ہے بلکہ کالم کے موضوع کو سمجھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے اور ان کے ادبی ذوق کی گواہی دیتا ہے۔
چودہ برس کی لگاتار کالم نگاری اور سات سوویں کالم کی اشاعت کا یہ سنگ میل یقیناً محمد اعظم شاہد کے لیے باعث فخر و مسرت ہے۔ اس مبارک موقع پر، میں تہہ دل سے انھیں اپنی پرخلوص مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما سفر ہے جس میں انھوں نے اپنے قلم کی روشنی سے جہانِ معنی کو منور کیا اور اپنے افکار کی خوشبو سے قاریانِ ادب کے دلوں کو معطر کیا۔
بارگاہِ ایزدی میں میری دعا ہے کہ حق و صداقت کی راہ پر گامزن ان کا اشہبِ قلم کبھی تھکاوٹ سے آشنا نہ ہو اور نہ ہی کسی منزل پر اس کی جولانیاں تھمیں۔ خدا کرے کہ وہ اسی عزم و ہمت کے ساتھ میدانِ کالم نگاری میں پیہم پیش قدمی کرتے رہیں اور علم و آگہی کے نئے نئے افق سر کرتے رہیں۔ ان کا قلم ہمیشہ سچائی کی ترجمانی کرتا رہے، مظلوموں کی آواز بنتا رہے اور معاشرے کو ایک بہتر مستقبل کی جانب رواں دواں کرنے میں اپنا موثر کردار ادا کرتا رہے۔
یہ سات سو کالم محض اعداد و شمار نہیں، بلکہ یہ ان کی فکری کاوشوں، سماجی بصیرت اور قلمی مہارت کا ایک زندہ جاوید ثبوت ہیں۔ دعا ہے کہ ان کا یہ سفر جاری رہے اور ان کے قلم سے ایسے ہی بصیرت افروز اور فکر انگیز کالم پھوٹتے رہیں، جو قارئین کے دلوں میں اتر کر اور انھیں نئی سوچ اور فکر کی دعوت دیں۔ آمین۔