BIG BREAKING:SC Freezes Waqf Reforms, Status Quo Orderedوقف بورڈ میں مداخلت نہیں، عدالت نے مرکز کو روکا

اگلی سماعت تک وقف قانون کی اہم شقوں پر روک لگ گئی

 مسلمانوں کو عارضی راحت،وقف بایوزر برقرار، غیر مسلم رکنیت روک دی گئی

نئی دہلی، 17 اپریل(حقیقت ٹائمز)

سپریم کورٹ نے وقف (ترمیمی) ایکٹ کی چند متنازع شقوں پر آج عبوری روک لگاتے ہوئے مرکزی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ اگلی سماعت یعنی 5 مئی 2025 تک درج ذیل دو بنیادی امور میں ہرگز مداخلت نہ کرے۔جس کے تحت وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈز میں غیر مسلم ارکان کی کسی بھی نئی تقرری پر پابندی۔ اور‘وقف بایوزر’ سمیت وہ تمام وقف املاک جو پہلے سے رجسٹرڈ یا نوٹیفائیڈ ہیں، ان کی حیثیت تبدیل یا کالعدم نہیں کی جائے گی۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی میں جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل بنچ نے سولیسیٹر جنرل تشار مہتا کے عہدِ عرفی کو ریکارڈ پر لیتے ہوئے حکم دیا کہ حکومت سات روز میں مفصل جواب داخل کرے، اور درخواست گزاروں کو مرکز کے جواب پر پانچ روز کے اندر جوابی دلائل جمع کرانے کی اجازت ہوگی۔عدالت نے اظہارِ تشویش کیا کہ ‘وقف بایوزر’ کی یکسر کالعدم کاری سے صدیوں پرانے وقف املاک، جن کے پاس اکثر تحریری دستاویزات نہیں ہوتیں، متاثر ہو سکتے ہیں۔ بنچ نے نشاندہی کی کہ چند افراد کے غلط استعمال کے باعث جائز ‘وقف بایوزر’ پر پابندی نامناسب ہوگی۔ 

عبوری روک کے کلیدی نکات

 حکومت نے وعدہ کیا کہ وقف کونسل اور وقف بورڈز میں ایکٹ کے تحت غیر مسلم ممبران کی بھرتیاں نہیں ہوں گی۔اور جو املاک ’وقف بایوزر‘ یا کسی اور طور پر وقف کے طور پر رجسٹرڈ یا نوٹیفائیڈ ہیں، ان کی حیثیت تبدیل یا کالعدم نہیں کی جائے گی۔اب معاملہ 5 مئی 2025 بروز پیر دوپہر 2 بجے دوبارہ زیرِ سماعت آئے گا۔

چیف جسٹس کھنہ نے استفسار کیا کہ اگر ’وقف بایوزر‘ کی شق ختم کردی گئی تو صدیوں سے عبادت یا خیراتی استعمال پر قائم ان املاک کی صورتحال کیا ہوگی، حالانکہ بیشتر کے پاس کوئی تحریری وقف نامہ موجود نہیں۔ جسٹس وشوانیتھن نے نشاندہی کی کہ چند کیسز میں غلط استعمال کے باوجود عموماً ’وقف بایوزر‘ جائز تسلیم کیا گیا ہے، اور اسے یکسر ختم کرنا غیر منصفانہ ہو سکتا ہے۔چیف جسٹس کھنہ نے کہا کہ عدالت پورے قانون کو معطل نہیں کرے گی، مگر اس وقت کی صورتحال میں ایسے فیصلے نہیں ہونے چاہئیں جن سے فریقین کے حقوق متاثر ہوں۔ مثالاً ’پانچ سال اسلام پر عمل‘ والی شق جس کی مطلق معطلی نہیں ہوئی۔

وقف (ترمیمی) ایکٹ کو 5 اپریل 2025 کو صدارتی توثیق حاصل ہوئی تھی، جس میں ‘وقف بایوزر’ کی شق ختم کی اور وقف کونسلز میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت لازمی قرار دی۔ اس قانون کے خلاف 72 درخواستیں سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہیں، جن میں اسدالدین اویسی، مسلم پرسنل لا بورڈ، جمیعت علمائے ہند، ڈی ایم کے، عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے ممبران کی عرضیاں شامل ہیں۔ سپریم کورٹ کی یہ عبوری کارروائی وقف جیسی مقدس و سماجی اہمیت کی حامل املاک کے حقوق کے تحفظ اور آئندہ سماعت تک معاملے کی حالتِ موجود برقرار رکھنے کی غرض سے کی گئی ہے۔