وقف کی تاریخ کو مٹانا ممکن نہیں: سپریم کورٹ کا فیصلہ کن موڈ
وقف ترمیمی قانون پر کورٹ میں شدید ریمارکس ،کل بھی سماعت جاری رہے گی
نئی دہلی، 16 اپریل (خصوصی رپورٹ)
سپریم کورٹ آف انڈیا میں بدھ کے روز وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف دائر 73 درخواستوں پر سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے مرکزی حکومت سے سخت سوالات کیے اور نئے قانون کے کئی نکات پر اپنی تشویش ظاہر کی۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس پی وی سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشوانتن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے ’وقف بائے یوزر‘ (Waqf by User) کی شق ختم کرنے پر خاص طور پر اعتراض ظاہر کیا۔ اس معاملے پر سماعت کل جمعرات کی دوپہر کو بھی جاری رہے گی۔
عدالت نے واضح طور پر کہا کہ اگر کوئی جائیداد صدیوں سے مذہبی یا فلاحی استعمال میں رہی ہے، اور اسے عدالتوں نے وقف تسلیم کیا ہے، تو اس کو نئی ترمیم کے تحت غیر وقف قرار دینا تاریخی حقائق کو جھٹلانے کے مترادف ہوگا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ "آپ کہہ رہے ہیں کہ 'وقف بائے یوزر' کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، لیکن بیشتر مساجد 14ویں تا 16ویں صدی کے دوران تعمیر ہوئیں، اور ان کے پاس آج کی طرح رجسٹرڈ سیل ڈیڈز نہیں ہوتے تھے۔ پھر ان کو آپ کیسے رجسٹر کریں گے؟ کیا ہم ایک قائم شدہ حقیقت کو مٹا سکتے ہیں؟"عدالت نے اسے ایک ’’تاریخی انکار‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی ترامیم تاریخی حقائق اور تہذیبی ورثے سے چشم پوشی کے مترادف ہیں۔
کلکٹر کو جائیداد کے فیصلے کا اختیار؟
عدالت نے اس شق پر بھی سوال اٹھایا جس کے تحت کلکٹر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی جائیداد کو وقف قرار دیے جانے سے پہلے اس کی جانچ کرے اور اسے سرکاری زمین قرار دے دے۔ عدالت کا ماننا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے قدیم مذہبی مقامات اور ادارے متاثر ہو سکتے ہیں۔ اور سوال کیا کہ"کیا کلکٹر مذہبی معاملات کے ماہر ہیں؟ کیا وہ یہ فیصلہ کریں گے کہ کوئی جگہ صدیاں پرانی عبادت گاہ ہے یا نہیں؟ کیا عدالتیں اور وقف بورڈ بے معنی ادارے رہ گئے ہیں؟"۔جسٹس وشوانتن نے ریمارکس دیے کہ ریاستی مشینری کو مذہبی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرنا چاہیے، ورنہ دستور کے سیکولر اصولوں پر زد پڑے گی۔
وقف بورڈ میں غیر مسلم ارکان کی شمولیت پر اعتراض
بینچ نے اس ترمیمی قانون میں یہ شق شامل کیے جانے پر بھی اعتراض کیا کہ وقف بورڈز اور سینٹرل وقف کونسل میں غیر مسلم ارکان کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے سوال اٹھایا کہ"کیا سناتن دھرم یا ہندو ٹرسٹوں میں مسلمانوں کو رکن بنایا جا سکتا ہے؟ اگر نہیں، تو پھر اقلیتی مذہبی اداروں میں اکثریتی مذہب کے نمائندوں کی موجودگی کیوں؟ کیا یہ اقلیتوں کے مذہبی خود اختیاری پر حملہ نہیں؟"
پرامن ماحول پر زور
عدالت نے مغربی بنگال کے مرشدآباد ضلع میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے تشدد پر بھی سخت تشویش ظاہر کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ "جب کوئی معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہو، تو اس دوران سڑکوں پر احتجاج اور فسادات قابل قبول نہیں۔ ایسا ماحول نہ صرف قانونی عمل کو متاثر کرتا ہے بلکہ سماجی امن کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔"
حکومت کو حلف نامہ داخل کرنے کی مہلت
مرکزی حکومت کے وکیل، سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت سے وقت طلب کیا تاکہ حکومت اپنا موقف تحریری طور پر پیش کر سکے۔ عدالت نے حکومت کو دو ہفتوں کی مہلت دی اور واضح کیا کہ اس دوران وقف بائے یوزر کی کسی جائیداد کو ڈی نوٹیفائی (de-notify) نہیں کیا جائے گا۔عدالت نے عندیہ دیا اگر سماعت کے دوران آئینی نکات مزید گہرے ہوتے گئے، تو معاملہ کسی فل بینچ یا آئینی بینچ کو بھی سونپا جا سکتا ہے۔
عدالت نے اعلان کیا کہ وقف ترمیمی قانون پر سماعت کل جمعرات کو دوپہر 2 بجے دوبارہ کی جائے گی، جس میں تمام فریقین کے دلائل سنے جائیں گے۔