Caste Census a Political Distraction? R. Ashoka Hits Out at CM Siddaramaiahذات پات کی مردم شماری سیاسی چال؟ آر اشوک کا سدارامیا پر سنگین الزام

 ذات پات پر مبنی مردم شماری

کیا سیاسی عدم استحکام سے توجہ ہٹانے کی چال ہے؟

وزیراعلیٰ سدارامیا پر آر اشوک کی شدید نکتہ چینی

بنگلورو 15 اپریل (حقیقت ٹائمز)

کرناٹک میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کی گونج ایک بار پھر زور پکڑتی نظر آ رہی ہے، اور اس بار اپوزیشن لیڈر و سابق نائب وزیراعلیٰ آر اشوک نے وزیراعلیٰ سدارامیا پر براہ راست حملہ کرتے ہوئے انہیں اس تنازعے کا اصل ذمہ دار قرار دیا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ جب بھی سدارامیا کی سیاسی کرسی متزلزل ہوتی ہے یا پارٹی کے اندر دباؤ بڑھتا ہے، تب وہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے مردم شماری کا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں۔آر اشوک نے کہا کہ حال ہی میں دہلی میں منعقدہ کانگریس کے اجلاس میں وزیراعلیٰ کو ہائی کمان کی جانب سے زبردست تنبیہ ملی ہے۔ حکومت کی بدانتظامی، ہنی ٹریپ جیسے اسکینڈلز اور مختلف ناکامیوں پر ان کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اس سیاسی دباؤ کے بعد، انہوں نے اچانک ذات پات پر مبنی مردم شماری کو دوبارہ زیر بحث لا کر پارٹی کے اندرونی اختلافات اور اقتدار کی رسہ کشی سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی ہے۔اپوزیشن لیڈر نے اس عمل کو مکمل طور پر غیر سائنسی، غیر شفاف اور ناقابلِ اعتبار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت کو واقعی ذات پات پر مبنی مردم شماری کی پروا ہوتی تو وہ 2018 میں کانتاراج رپورٹ کو نافذ کر چکی ہوتی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس رپورٹ پر خود کمیشن کے سکریٹری کے دستخط تک موجود نہیں، اور رپورٹ کی اصل نقل آج تک غائب ہے، جس پر ریاست کے پسماندہ طبقات کی نمائندہ شخصیات اور تنظیموں نے شدید تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ دس سال پرانی اور غیر سائنسی سروے رپورٹ کو موجودہ سیاسی تناظر میں پیش کرنا صرف ایک حربہ ہے، تاکہ اقتدار میں شریک دیگر قائدین کو دباؤ میں رکھا جا سکے۔ انہوں نے اس امر پر بھی تشویش ظاہر کی کہ رپورٹ میں صرف لِنگایت اور وکّلیگا برادری کے ذیلی طبقات کو علیحدہ طور پر شمار کیا گیا ہے، جب کہ مسلم اور عیسائی برادریوں میں اس اصول کو نظر انداز کر دیا گیا، جو کہ امتیازی رویے کی نشاندہی کرتا ہے۔آر اشوک نے یاد دلایا کہ خود کانگریس کے سینئر رہنما، جن میں ڈپٹی چیف منسٹر ڈی کے شیوکمار اور شامنور شیو شنکراپا شامل ہیں، اس رپورٹ کی مخالفت کر چکے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ گزشتہ بائیس مہینوں تک اس معاملے پر خاموشی اختیار کرنے کے بعد اچانک اسے کابینہ میں کیوں پیش کیا جا رہا ہے؟۔انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ حکومت دانستہ طور پر ذات پات کے اعداد و شمار کو میڈیا میں لیک کر رہی ہے تاکہ عوامی جذبات کو بھڑکا کر سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکے، جب کہ اس عمل سے ریاست کے دلت اور پسماندہ اور طبقات کی شناخت کو صرف ایک سیاسی آلہ کار بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر واقعی حکومت کو سماجی انصاف سے دلچسپی ہے تو ایک شفاف، سائنسی اور سب کی شمولیت پر مبنی نئی مردم شماری کرائی جائے، تاکہ ہر طبقہ اپنے حقیقی اعداد و شمار کی بنیاد پر مساوی حقوق کا حقدار بن سکے۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سدارامیا سے مطالبہ کیا کہ وہ ذاتی مفاد، سیاسی چالاکی اور وقتی فائدے کو چھوڑ کر ایمانداری سے ریاست کے عوام کے سامنے سچائی لائیں، کیونکہ ذات پات کو سیاسی آلہ بنانا صرف عوام کے اعتماد سے کھیلنے کے مترادف ہے۔