ہم اپنا مذہب کمرے سے باہر چھوڑ آتے ہیں
وقف معاملے پر سماعت کے دوران چیف جسٹس کا حکومت کو آئینہ
نئی دہلی، 16 اپریل(خصوصی رپورٹ)
سپریم کورٹ آف انڈیا میں آج وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت کے دوران اس وقت ایک اہم موڑ آیا جب مرکزی حکومت کی جانب سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا کے دلائل پر چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس سنجیو کھنہ نے سخت ردعمل دیا۔جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل بینچ جب اس قانون کے متنازعہ سیکشن 9 اور 14 پر سماعت کر رہی تھی، تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا مسلمانوں کو ہندو مذہبی اداروں کے بورڈز یا کونسلوں میں بھی شامل کیا جا سکتا ہے؟
چیف جسٹس نے سالیسٹر جنرل سے براہ راست سوال کیا"مسٹر تشار مہتا، کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ہندو مذہبی اداروں یا انڈومنٹ بورڈز میں اقلیتوں، بشمول مسلمانوں کو شامل کرنے کی اجازت ہوگی؟ برائے مہربانی صاف صاف جواب دیجیے۔"جب سالیسٹر جنرل نے یہ کہا کہ اگر غیر مسلموں کی وقف کونسل میں شمولیت پر اعتراض کیا جائے تو پھر اس منطق سے موجودہ بینچ بھی یہ معاملہ نہیں سن سکتی، کیونکہ اس میں غیر مسلم جج موجود ہیں، تو چیف جسٹس کھنہ نے فوری طور پر جواب دیا: "نہیں، مسٹر مہتا! ہم صرف عدالتی کارروائی کی بات نہیں کر رہے۔ جب ہم یہاں بینچ پر بیٹھتے ہیں، تو ہم اپنا مذہب پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم بالکل سیکولر انداز میں فیصلہ کرتے ہیں۔ ہمارے لیے دونوں فریق برابر ہوتے ہیں۔"انہوں نے مزید کہا "لیکن جب بات ایک ایسے بورڈ یا کونسل کی ہو جو مذہبی امور دیکھتا ہو، تو وہاں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ مثلاً، اگر کسی ہندو مندر میں کوئی ریسیور مقرر کرنا ہو یا کوئی انڈومنٹ ٹرسٹ ہو، تو اس کے گورننگ بورڈ کے تمام ارکان ہندو ہی ہوتے ہیں۔ تو پھر آپ ججوں کو مختلف برادریوں سے جوڑ کر اس سے کیسے موازنہ کر سکتے ہیں؟"
سالیسٹر جنرل نے وضاحت دی کہ ترمیمی قانون میں صرف دو غیر مسلموں کو شامل کرنے کی گنجائش ہے، اور اکثریت اب بھی مسلمانوں ہی کی ہوگی۔ لیکن عدالت نے اس دلیل کو غیر موزوں قرار دیتے ہوئے کہا کہ "یہ قانون مذہبی جائیدادوں کے انتظام کا ہے، اور اس میں مذہبی حساسیت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اگر ہندو مذہبی اداروں میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا جاتا، تو پھر یہاں غیر مسلموں کی شمولیت کا کیا جواز ہے؟"۔