CM Siddaramaiah Stresses Economic Progress to End Caste System وزیر اعلیٰ سدارامیا نے اقتصادی ترقی سے ذات پات کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا

 من کی بات یک طرفہ اظہار کا ذریعہ، نہ کہ جمہوری مکالمہ ۔سدارامیا

کوڈل سنگم، 29 اپریل (حقیقت ٹائمز)

  وزیر اعلیٰ سدارامیا نے وزیراعظم نریندر مودی کے پروگرام من کی بات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ پروگرام صرف سننے پر مبنی ہے، اس میں کوئی جمہوری بحث یا تبادلہ خیال کی گنجائش نہیں ہے، جو کہ آمرانہ رویے کی علامت ہے۔وہ یہاں شَرَنر وئبھَو – 2025 کے افتتاحی پروگرام سے خطاب کر رہے تھے، جو محکمہ کنڑ اور ثقافت کی جانب سے بسوا جینتی کے موقع پر منعقد کیا گیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے بسوا شری ایوارڈ بھی تقسیم کیا۔سدارامیا نے کہا کہ جمہوریت میں بحث و مباحثہ ہوتا ہے، مگر آمریت میں صرف ایک شخص بولتا ہے اور باقی سب سنتے ہیں۔ من کی بات اسی آمرانہ طرز کا مظہر ہے، جہاں صرف وزیراعظم بولتے ہیں اور عوام کو سننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ شَرَنوں کی وچنائیں عام فہم زبان میں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وچن ادب عوامی ادب بن گیا۔ قدیم ہندوستان میں شُدر اگر سنسکرت سیکھنے کی کوشش کرتے تو ان کے کانوں میں سیسہ ڈالنے کی سزا دی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ شُدر برادری علم و ادب سے محروم رہی اور سماجی عدم مساوات نے جنم لیا۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ آئین ایسے سماج میں نافذ کیا گیا جہاں تضادات پائے جاتے ہیں۔ سیاسی آزادی تو حاصل ہوئی، مگر آج بھی سماجی و معاشی آزادی سے عوام محروم ہیں۔ ڈاکٹر امبیڈکر کے مطابق صرف سیاسی آزادی کافی نہیں، جب تک سماجی و معاشی برابری نہ ہو۔انہوں نے کہا کہ اگر بسوا جینتی منانے کے ساتھ ساتھ لوگ ’کرم سدھانت‘ اور ’مقدر‘ پر یقین رکھتے رہیں تو اس تقریب کا کوئی مطلب نہیں۔ بسوا نہ صرف قسمت اور کرم سدھانت کے خلاف تھے بلکہ انہوں نے ہر فرد کو سماجی برابری کا پیغام دیا۔وزیر اعلیٰ نے عوام سے اپیل کی کہ وہ بسوا کے اصولوں کو سمجھیں اور عملی زندگی میں اپنائیں۔ اگر ہم صرف تقاریر تک محدود رہیں تو معاشرے میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی۔انہوں نے کہا کہ ’’آچارن ہی سورگ ہے، اور انآچارن ہی نرک‘‘ (اچھا عمل ہی جنت اور برا عمل ہی جہنم ہے) – یہ بسوا کے بنیادی اصول ہیں۔ ان کا ماننا تھا کہ رحم و کرم ہی مذہب کی بنیاد ہے۔سدارامیا نے مزید کہا کہ بسوا اور امبیڈکر کے خیالات ایک جیسے ہیں – دونوں نے مساوات، بھائی چارے اور انسانی وقار کو اہمیت دی۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ سماج کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ’منوواد‘ چاہتے ہیں یا ’بسواواد‘۔ ’’منوواد ظلم و امتیاز کی علامت ہے، جبکہ بسواواد انسانیت اور برابری کا علمبردار ہے،‘‘ انہوں نے کہا کہ دنیا کی پہلی جمہوری اسمبلی انوبھوا منٹپ تھی، جو 900 سال قبل بسوا نے قائم کی۔ اس موقع پر انہوں نے اعلان کیا کہ اس سال کے آخر تک انوبھوا منٹپ کی تعمیر مکمل کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہم ترقیاتی کام کریں گے، بسوا اور نیلامبیکے کے مجسمے نصب کریں گے، لیکن آپ بھی دل سے تبدیلی لائیں، سب کو اپنا سمجھیں۔اس پروگرام میں وزراء ایم بی پاٹل، آر بی تمّاپور، شیو راج تنگڈگی اور دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی۔