صرف لائک کرنا جرم نہیں ۔ الہ آباد ہائی کورٹ کا اہم فیصلہ
سوشل میڈیا صارف کو مقدمے سے بری کر دیا گیا
الہ آباد 21 اپریل (حقیقت ٹائمز)
الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر کسی پوسٹ کو صرف ’لائک‘ کرنا اسے شیئر یا شائع کرنے کے مترادف نہیں ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ اگر کوئی شخص کسی متنازع یا قابل اعتراض پوسٹ کو صرف پسند کرتا ہے، تو اسے انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 67 کے تحت مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔یہ فیصلہ جسٹس سوربھ شریواستو نے اس وقت سنایا جب آگرہ کے رہائشی عمران خان کے خلاف دائر مقدمے کو منسوخ کرنے کی درخواست پر سماعت ہو رہی تھی۔ پولیس کے مطابق، عمران خان نے ایک ایسی فیس بک پوسٹ کو لائک کیا تھا جس میں صدرِ جمہوریہ ہند کو میمورنڈم دینے کے لیے احتجاجی جلسے کی اطلاع دی گئی تھی۔ اس کے بعد ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے اجازت کے بغیر جلوس نکالا اور سوشل میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کو اکسانے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں 600 تا 700 افراد جمع ہوئے۔تاہم، عدالت نے قرار دیا کہ محض کسی پوسٹ کو لائک کرنا آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 67 کے تحت قابل سزا جرم نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ "ریکارڈ میں ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ جس سے یہ ظاہر ہو کہ لائک کرنا اشتعال انگیزی یا فحش مواد کے فروغ کے برابر ہے۔ دفعہ 67 صرف فحش مواد کے حوالے سے لاگو ہوتی ہے، نہ کہ کسی بھی قسم کے دیگر اشتعال انگیز مواد پر۔"عدالت نے مزید کہا کہ اصطلاح "لذت کی تسکین" صرف جنسی مفہوم رکھتی ہے، اور اس کا اطلاق کسی عام احتجاج یا سیاسی پوسٹ پر نہیں ہو سکتا۔دارخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ عمران خان کی فیس بک یا واٹس ایپ پر کوئی قابل اعتراض پوسٹ موجود نہیں تھی، اور اگر کوئی تھا بھی تو وہ ہٹا دیا گیا تھا۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس نوعیت کی پوسٹس موجود تھیں، لیکن عدالت نے اسے ناکافی قرار دیا۔عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ عمران خان کے خلاف کوئی مجرمانہ پہلو ثابت نہیں ہوتا، اس لیے ان کے خلاف درج مقدمہ ختم کیا جاتا ہے۔