Muslim Representation Likely in Modi Cabinet Reshuffle مودی کابینہ میں مسلم نمائندگی کا امکان

مرکزی وزارت میں مسلم چہرے کی شمولیت متوقع، سیاسی حلقوں میں ہلچل

نئی دہلی، 12 اپریل (حقیقت ٹائمز)

نریندر مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کی جانب سے اگلے متوقع کابینہ میں رد و بدل کے دوران ایک بڑی تبدیلی متوقع ہے، جس کے تحت ایک مسلم چہرے کو مرکزی کابینہ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ یہ پیش رفت اس وقت اہمیت اختیار کر گئی ہے جب اپوزیشن کی جانب سے بارہا یہ سوال اٹھایا گیا کہ موجودہ کابینہ میں کوئی مسلم وزیر موجود نہیں ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کے "سب کا ساتھ، سب کا وکاس" کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے مقصد سے، بی جے پی ذرائع کے مطابق، وہ سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں کہ ایک مسلم نمائندے، بالخصوص پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے فرد کو وزارتِ اقلیتی امور میں وزیر مملکت کے طور پر شامل کیا جائے۔ بی جے پی کے پاس اس وقت دو نمایاں مسلم چہرے ہیں ۔ جموں و کشمیر سے راجیہ سبھا کے رکن غلام علی کھٹانہ اور اقلیتی مورچہ کے قومی صدر جمال صدیقی۔ اگر جمال صدیقی کو کابینہ میں جگہ دی جاتی ہے تو امکان ہے کہ انہیں جلد ہی راجیہ سبھا کی نشست بھی دی جائے گی۔ صدیقی کا تعلق مہاراشٹر سے ہے جبکہ کھٹانہ جموں و کشمیر سے ہیں۔انڈین ایکسپریس نے ایک سینیئر لیڈر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ "وزیر اعظم کی خواہش ہے کہ پسماندہ مسلم طبقے کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے، اور اسی حکمت عملی کے تحت ایک پسماندہ مسلم چہرے کو کابینہ میں لانے پر غور کیا جا رہا ہے۔" کابینہ میں یہ رد و بدل مئی کے دوسرے ہفتے تک بی جے پی کے نئے قومی صدر کے انتخاب کے بعد متوقع ہے۔ سمجھا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم کے دفتر نے تمام وزرا کی کارکردگی کی تفصیلی جانچ کی ہے، جس کے بعد درجن بھر وزارتوں میں تبدیلیاں ممکن ہیں۔ذرائع کے مطابق، موجودہ اقلیتی امور کے وزیر کرن ریجیجو کی جگہ کسی اور کو یہ ذمہ داری دی جا سکتی ہے۔ اطلاعات و نشریات، شہری ترقی، پیٹرولیم، قانون و انصاف، شمال مشرقی ریاستوں کی ترقی، کوئلہ و کانکنی، اور الیکٹرانکس و آئی ٹی کی وزارتوں میں بھی تبدیلیاں متوقع ہیں۔بی جے پی اعلیٰ سطح پر "ایک فرد، ایک عہدہ" کے اصول کو بھی سختی سے لاگو کرنے کی تیاری میں ہے، جس کا مطلب ہے کہ کوئی فرد ایک سے زائد عہدوں پر فائز نہیں رہے گا۔یہ ممکنہ تبدیلی نہ صرف بی جے پی کے تنظیمی ڈھانچے پر اثر ڈالے گی بلکہ اقلیتی برادری کو پیغام دینے کی کوشش بھی سمجھی جا رہی ہے کہ حکومت انہیں نظر انداز نہیں کر رہی بلکہ انہیں نمائندگی دینے کے لیے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔