ذات پات پر مبنی مردم شماری
سدارامیا گینگ کی تیار کردہ غیر سائنسی رپورٹ – اپوزیشن لیڈر آر۔ اشوک کا الزام
بنگلور، 18 اپریل (حقیقت ٹائمز)
کرناٹک میں ذات پات پر مبنی مردم شماری پر سیاسی گھماسان تیز ہو گیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر آر۔ اشوک نے اس مردم شماری رپورٹ کو ’سدارامیا گینگ‘ کی تیار کردہ ایک غیر سائنسی، متنازعہ اور ناقابل قبول دستاویز قرار دیتے ہوئے حکومت پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔آج صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے آر۔ اشوک نے دعویٰ کیا کہ مردم شماری رپورٹ کی تیاری میں شفافیت کا فقدان رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو رپورٹ پیش کی گئی ہے، اس پر نہ تو متعلقہ افسر کانتاراجو نے دستخط کیے، اور نہ ہی یہ اصل رپورٹ ہے۔ یہ محض ایک نقل ہے جس پر جے پرکاش ہیگڈے جیسے سینئر لیڈر نے بھی اعتراض اٹھایا ہے اور باقاعدہ خط لکھا ہے، اشوک نے سوال کیا کہ گزشتہ دس برسوں میں ریاست میں ایک کروڑ سے زائد بچے پیدا ہوئے ہیں، ان کا سماجی و معاشی درجہ کیا ہوگا؟ انہیں مردم شماری میں کس ذات میں شمار کیا جائے گا؟ ان کے لیے ریزرویشن کی بنیاد کیا ہوگی؟ اور الزام لگایا کہ یہ رپورٹ نئی نسل کے مستقبل کو غیریقینی کی طرف دھکیل رہی ہے۔آر۔ اشوک نے دعویٰ کیا کہ وزیراعلیٰ سدارامیا نے کابینہ کے وزراء سے صرف رائے طلب کی ہے، اور خود ہی اس رپورٹ کو بنیاد بناکر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نومبر میں سدارامیا کو استعفیٰ دینا ہے، اور اسی مقصد کے لیے یہ رپورٹ سیاسی ہتھیار بنائی گئی ہے۔انہوں نے کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر مخلوط حکومت کے وقت سدارامیا نے ہمت کی ہوتی تو تب بھی یہ رپورٹ جاری ہو سکتی تھی، لیکن اُس وقت خاموشی کیوں اختیار کی گئی؟
مسلمانوں کو اقلیت سے نکالنے کا مطالبہ
اشوک نے رپورٹ میں مسلمانوں کو اکثریتی قرار دیے جانے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر فوری طور پر انہیں اقلیت کے درجے سے ہٹا دیا جانا چاہیے۔ اور الزام لگایا کہ یہ رپورٹ سماجی توازن کو بگاڑنے والی ہے۔اپوزیشن لیڈر نے الزام لگایا کہ سی ای ٹی امتحانات میں برہمن طلباء کو جنیوارا دھاگا پہننے کی اجازت نہ دینا، ہندو عقائد کی توہین ہے۔جبکہ مسلم لڑکیوں کو حجاب کی اجازت ہے، یہ دوہرا رویہ ناقابل قبول ہے۔‘ انہوں نے اس معاملے میں سدارامیا سے معافی مانگنے اور ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔آر۔ اشوک نے دعویٰ کیا کہ وقف کے نام پر عوامی زمینیں ہڑپ کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ قانون کا مطالبہ ممکن نہیں، سب کو ایک ہی زمین کے قانون پر عمل کرنا ہوگا۔اشوک کے مطابق ریاست بھر میں مختلف طبقات کی جانب سے مردم شماری رپورٹ پر تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔ کئی کانگریس رہنما بھی اس رپورٹ پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ اشوک کے مطابق، یہ حکومت کے لیے ’نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے‘ جیسی صورتحال ہے۔