سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کی فوری سماعت پر آمادگی
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیت علمائے ہند، اسد الدین اویسی، امانت اللہ خان اور دیگر نے ترامیم کو چیلنج کیا
نئی دہلی، 5 اپریل (حقیقت ٹائمز)
سپریم کورٹ آف انڈیا نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی فوری سماعت پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ پیر کے روز سینئر وکیل کپل سبل نے چیف جسٹس آف انڈیا، جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی والی بینچ کے سامنے اس معاملے کا خصوصی تذکرہ کیا۔واضح رہے کہ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 حال ہی میں پارلیمنٹ سے منظور ہو کر صدر جمہوریہ کی منظوری کے بعد نافذ العمل ہو چکا ہے۔ اس قانون کے تحت وقف املاک کے تعین، انتظام اور قانونی حیثیت میں اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں، جن پر ملک بھر کی متعدد مسلم تنظیموں نے شدید اعتراض کیا ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس قانون کو "وقف املاک پر حملہ" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وقف اداروں کو کمزور کرنے اور ان کی املاک پر قبضے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ بورڈ کے ترجمان ایس کیو آر الیاس کے مطابق، یہ ترمیمات مسلمانوں کے مذہبی اور آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے بھی ان ترامیم کو آئین کی دفعات 14، 15 اور 25 کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان کے بقول، اس قانون کے ذریعے مسلمانوں کے مذہبی امور میں حکومتی مداخلت بڑھائی جا رہی ہے۔سپریم کورٹ میں دائر درخواستیں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیت علمائے ہند، رکن پارلیمان اسد الدین اویسی، دہلی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان اور دیگر نے داخل کی ہیں۔ درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ نئی ترامیم میں وقف بورڈ میں غیر مسلم افراد کی تقرری، مرکزی حکومت کو زیادہ اختیارات، اور دیگر انتظامی تبدیلیاں شامل ہیں، جو نہ صرف آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہیں بلکہ مذہبی آزادی پر بھی حملہ ہیں۔سینئر وکیل کپل سبل نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ اس اہم مسئلے کو فوری طور پر سنا جائے کیونکہ یہ لاکھوں مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور ان کی جائیدادوں کے تحفظ سے وابستہ ہے۔ چیف جسٹس نے اس درخواست سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ "اہم معاملہ" ہے اور اسے جلد سماعت کے لیے فہرست میں شامل کیا جائے گا۔وقف ایکٹ میں ترامیم کے خلاف ملک بھر میں مختلف مسلم تنظیمیں اور قائدین مسلسل احتجاج اور قانونی چارہ جوئی کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان ترامیم کا اصل مقصد وقف جائیدادوں پر حکومتی کنٹرول حاصل کرنا اور مسلمانوں کے مذہبی اداروں کو کمزور کرنا ہے۔دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ ان ترامیم کا مقصد وقف اداروں میں شفافیت، جوابدہی اور بدعنوانی کا خاتمہ ہے۔ اب یہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر منحصر ہے کہ وہ ان ترامیم کو آئینی تسلیم کرتی ہے یا کالعدم قرار دیتی ہے۔