صدر جمہوریہ کی منظوری مل گئی
وقف ترمیمی ایکٹ کو قانونی حیثیت حاصل
مسلم حلقوں میں اضطراب کی کیفیت
نئی دہلی: 5 اپریل (حقیقت ٹائمز)
پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے وقف ترمیمی ایک کو منظوری دے دی ہے، جس کے ساتھ ہی یہ بل اب باقاعدہ قانون بن چکا ہے۔ اس ترمیمی قانون کے تحت ملک بھر میں وقف املاک کے انتظام و انصرام، وقف بورڈز کی تشکیل، اور سروے کے نظام میں کئی بنیادی تبدیلیاں متعارف کرائی گئی ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان ترامیم سے شفافیت بڑھے گی، اقلیتوں کے فلاحی اداروں کی کارکردگی میں بہتری آئے گی، اور بدعنوانی پر قابو پایا جا سکے گا۔نئے قانون کے مطابق اب ہر ریاستی وقف بورڈ میں دو مسلم خواتین کی شمولیت لازمی قرار دی گئی ہے، جبکہ پہلی بار دو غیر مسلم اراکین کو بھی بورڈ میں جگہ دی جا سکے گی۔ مزید یہ کہ "واقف" یعنی وقف کرنے والے کی تعریف میں تبدیلی کی گئی ہے، جس کے تحت وہ شخص کم از کم پانچ سال سے باعمل مسلمان ہونا چاہیے اور اس کی جائیداد پر مکمل قانونی ملکیت ہونا ضروری ہے۔ جائیداد وقف کرنے سے قبل واقف پر لازم ہوگا کہ وہ اپنے تمام شرعی ورثا کے حقوق کی ادائیگی کو یقینی بنائے۔ایک اہم تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ وقف املاک کے سروے کے لیے ریاستی حکومت اب کلکٹر کو ذمہ دار بنا سکتی ہے، اور اس عمل میں سروے کمشنر کی تقرری لازمی نہیں رہی۔ اس کے علاوہ، بورڈ کے تمام اراکین کے لیے باقاعدہ اہلیت، تجربے اور شفافیت سے متعلق ضوابط بھی شامل کیے گئے ہیں۔اگرچہ حکومت ان اصلاحات کو ایک مثبت اور انتظامی قدم قرار دے رہی ہے، لیکن مسلم تنظیموں اور دینی اداروں نے ان ترامیم پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیۃ علمائے ہند اور دیگر ممتاز ادارے اس قانون کو وقف کے اسلامی تصور اور خودمختاری کے خلاف قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق وقف ایک مذہبی و شرعی عمل ہے جس میں ریاستی مداخلت آئینی و مذہبی آزادی سے متصادم ہے۔

تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بورڈز میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت، سروے کے اختیارات کی مرکزیت، اور وقف کے بنیادی شرعی اصولوں میں ترمیم، مسلمانوں کے مذہبی اور قانونی ڈھانچے کو متاثر کر سکتے ہیں۔ کئی علما نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا یہی اصول مندروں، گرجا گھروں یا دیگر مذہبی اداروں پر بھی لاگو ہوں گے، یا پھر وقف کو نشانہ بنایا جا رہا ہے؟قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون کو عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے، اور غالب امکان ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اس سلسلے میں جلد مشاورت کرے گا۔ اس پوری پیش رفت نے ایک بار پھر مذہبی آزادی، اقلیتوں کے حقوق اور ریاست کی حد بندی جیسے حساس موضوعات کو قومی بحث میں لا کھڑا کیا ہے۔اس معاملے پر پہلے ہی ڈی ایم کے ، مجلس اتحاد المسلمین ، کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کا اعلان کردیا ہے ۔