چہارشنبہ کو وقف بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی تیاریاں
مسلمانوں میں بےچینی، سیاست میں ہلچل
نئی دہلی، یکم اپریل (حقیقت ٹائمز)
مودی حکومت کے ذریعے متنازع وقف ترمیمی بل 2 اپریل بروز چہارشنبہ پیش کرنے کی تیاریاں چل رہی ہیں ۔ہندوستانی پارلیمنٹ میں پیش ہونے والے مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024 نے مسلم حلقوں میں سخت تشویش پیدا کر دی ہے۔ اس بل کو وقف املاک کی شفافیت اور انتظامی اصلاحات کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے، لیکن مسلم رہنماؤں اور تنظیموں کا ماننا ہے کہ یہ وقف جائیدادوں کو سرکاری کنٹرول میں لانے کی ایک کوشش ہے، جو نہ صرف مسلم اداروں کے وجود کے لیے خطرہ بن سکتی ہے بلکہ آئینی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔
حکومت کے مطابق، اس بل کا مقصد وقف املاک کے انتظام و انصرام میں شفافیت لانا، بدعنوانیوں پر قابو پانا، اور وقف بورڈز کی کارکردگی کو مؤثر بنانا ہے۔ لیکن مسلم تنظیموں کا ماننا ہے کہ بل میں کئی ایسی شقیں شامل کی گئی ہیں جو وقف املاک کو کمزور کرنے کا سبب بن سکتی ہیں، جیسے غیر مسلم افراد کو وقف بورڈز کا ممبر بنانے کی شق، جسے مسلم تنظیمیں مذہبی امور میں غیر ضروری مداخلت قرار دے رہی ہیں ۔حکومت کو یہ اختیار دیا جا رہا ہے کہ وہ وقف جائیدادوں کے انتظام میں براہ راست مداخلت کر سکے، جس سے ان کے تحفظ کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔وقف املاک کی حیثیت تبدیل کرنے کے اختیارات میں توسیع، جسے مسلمانوں کے لیے تشویشناک قرار دیا جا رہا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیۃ علماء ہند، اور دیگر مسلم جماعتوں نے اس بل کو "وقف جائیدادوں پر قبضے کی سازش" قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا عندیہ دیا ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ یہ بل وقف ایکٹ 1995 میں ایسے خطرناک ترمیمات کر رہا ہے جو وقف املاک کی آزادی اور ان کے اصل مقصد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔مولانا ارشد مدنی نے بھی اس بل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسلمانوں کے مذہبی اور سماجی حقوق پر حملہ ہے، جس کے خلاف متحدہ احتجاج ناگزیر ہے۔آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے بل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہے۔ انہوں نے حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر یہ بل منظور کیا گیا تو اس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔کانگریس، ترنمول کانگریس، ڈی ایم کے اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس بل پر سوال اٹھائے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسے اقلیتی برادری سے مشاورت کے بعد پیش کرے۔
اصلاحات یا کنٹرول؟
حکومت کے مطابق، اس بل کا مقصد صرف اور صرف وقف املاک کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے، بدعنوانی کو ختم کرنا ہے، اور ان املاک کو بہتر طور پر استعمال میں لانا ہے۔ لیکن مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی کئی مواقع پر وقف املاک کو غیر قانونی طور پر ہڑپ کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں، اور یہ ترمیم انہیں مزید کمزور کر دے گی۔اگر یہ بل 2 اپریل کو پیش کیا گیا اور منظور ہو گیا، تو ممکنہ طور پر ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے دیکھنے کو ملیں گے۔ مسلم تنظیمیں سپریم کورٹ میں اس کے خلاف جانے کی تیاری کر رہی ہیں اور اپوزیشن جماعتیں بھی اس بل کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔مسلم کمیونٹی کے لیے یہ بل نہ صرف ان کی وقف جائیدادوں کے مستقبل کا سوال ہے بلکہ ان کے آئینی و مذہبی حقوق کی بقا سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس بل میں کوئی ترمیم کرتی ہے یا سخت مخالفت کے باوجود اسے منظور کرانے کے لیے آگے بڑھتی ہے۔
پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس 4 اپریل کو ختم ہونے والا ہے، اور اس سے قبل حکومت وقف ترمیمی بل 2024 کو ایوان میں منظور کرانے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ تاہم، این ڈی اے کی حلیف جماعتیں، تلگو دیشم پارٹی (TDP) اور جنتا دل یونائیٹڈ (JDU)، اس معاملے پر خاموش ہیں، جس کے باعث مسلم حلقوں میں تجسس بڑھ گیا ہے کہ آیا یہ جماعتیں بل کی حمایت کریں گی یا مخالفت۔ بی جے پی کے اندرونی ذرائع کے مطابق، پارٹی قیادت کو توقع ہے کہ دونوں جماعتیں ایوان میں ووٹنگ کے وقت غیرجانبدار رہیں گی یا پھر کسی شرط پر حمایت کا عندیہ دے سکتی ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو بل کی منظوری آسان ہو جائے گی، لیکن اگر یہ جماعتیں اپوزیشن کا ساتھ دیتی ہیں تو حکومت کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ اس پس منظر میں، 2 اپریل کو پیش ہونے والے بل پر پارلیمنٹ میں گرما گرم بحث اور اپوزیشن کے سخت احتجاج کا امکان ہے، جس سے ہندوستانی سیاست میں ایک نیا تنازعہ جنم لے سکتا ہے۔


بنگلور میں سابق وزیر و سینیئر رہنما آر روشن بیگ نے پیر کو عیدگاہ قدوس صاحب میں نماز عید الفطر ادا کرنے کے بعد وقف ترمیمی بل کے خلاف سیاہ پٹیاں باندھ کر علامتی احتجاج درج کیا اور وقف ترمیمی بل کے خلاف میڈیا سے گفتگو بھی کی۔