تعلیم کا جنون یا حوصلے کی مثال
پرمیلا نائک نے63 سال کی عمر میں دسویں کا امتحان پاس کر کے نئی تاریخ رقم کی
شیموگہ 6 مئی (حقیقت ٹائمز)
زندگی کی تیز رفتاری، گھریلو ذمہ داریوں اور وقت کی مجبوریوں میں اکثر انسان اپنے خوابوں کو کہیں پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو وقت کے آگے ہار ماننے کے بجائے اپنے خوابوں کو سنبھال کر رکھتے ہیں، اور جب موقع ملے تو انہیں حقیقت میں بدلنے کی جرأت بھی رکھتے ہیں۔ ضلع شیموگہ کے تِیرتھ ہلی قصبے کی 63 سالہ پرمیلا نائک بھی ایسی ہی ایک خاتون ہیں، جنہوں نے دہائیوں بعد تعلیم کا ادھورا سفر دوبارہ شروع کیا اور دسویں (ایس ایس ایل سی)کے امتحان میں کامیابی حاصل کر کے یہ ثابت کیا کہ علم حاصل کرنے کے لیے نہ عمر کی قید ہے اور نہ ہی وقت کی رکاوٹ کوئی معنی رکھتی ہے۔پرمیلا نائک کا تعلیمی سفر بچپن میں شروع ضرور ہوا تھا، مگر شادی کے بعد گھریلو ذمے داریوں، بچوں کی پرورش اور سماجی توقعات کے درمیان ان کی تعلیم کہیں کھو گئی۔ وقت گزرتا گیا، بیٹے کی پرورش اور اس کی تعلیم کو ترجیح دیتے ہوئے پرمیلا نے اپنی تمام تمناؤں کو پس پشت ڈال دیا۔ ان کا اکلوتا بیٹا آج سنگاپور میں ایک نجی کمپنی میں سی ای او کے عہدے پر فائز ہے، جس پر انہیں فخر ہے۔ مگر دل کے کسی کونے میں وہ ادھورا خواب زندہ تھا — اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کا خواب۔یہی خواب برسوں بعد پھر جاگا۔ شاید بیٹے کی کامیابی، عمر کا تجربہ یا دل کی کسی خلش نے انہیں حوصلہ دیا کہ اب وقت ہے خود کو بھی ایک موقع دینے کا۔ پرمیلا نائک نے نہ صرف ایس ایس ایل سی کے امتحان کے لیے تیاری کی، بلکہ اسے کامیابی سے مکمل بھی کیا۔ 2 مئی کو جب نتائج کا اعلان ہوا، تو ان کے چہرے پر صرف کامیابی کی خوشی نہیں، بلکہ ایک طویل انتظار کی تکمیل کا سکون بھی نمایاں تھا۔ان کی اس کامیابی پر صرف خاندان ہی نہیں، بلکہ محلہ اور مقامی سماج بھی فخر محسوس کر رہا ہے۔ ان کے شوہر، جو ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں، نے اپنی اہلیہ کے حوصلے کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ پرمیلا نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ سماج کے لیے ایک مثال قائم کی ہے۔آج جب ہم تعلیمی میدان میں مسلسل ترقی، امتحانات کے دباؤ، اور نوجوانوں کی مسابقتی دوڑ کی بات کرتے ہیں، وہیں پرمیلا نائک جیسی خواتین ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ علم کے حصول کی کوئی حد مقرر نہیں ہوتی۔ تعلیم صرف جوانی کا حق نہیں، بلکہ ہر عمر کے انسان کا بنیادی حق اور خواہش ہے۔پرمیلا نائک کی کہانی نہ صرف متاثر کرتی ہے بلکہ سوال بھی اٹھاتی ہے — کتنے ہی خواب ہم نے سماجی دباؤ یا وقت کی کمی کے باعث قربان کر دیے؟ اور اگر حوصلہ ہو تو کیا ہم بھی ان خوابوں کو دوبارہ زندہ نہیں کر سکتے؟ ان کی جدوجہد ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ خواب کبھی مرتے نہیں، بس حوصلہ درکار ہوتا ہے انہیں دوبارہ زندہ کرنے کا۔