Justice Gavai’s Bench to Hear Waqf Law Petitions on May 15 وقف ترمیمی قانون پر سماعت اب جسٹس گوائی کی بنچ کے سپرد

وقف ترمیمی قانون

 سپریم کورٹ کی نئی بینچ 15 مئی سے سماعت کرے گی

نئی دہلی، 5 مئی (حقیقت ٹائمز)

سپریم کورٹ آف انڈیا نے وقف (ترمیمی) قانون  کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کے لیے نئی چیف جسٹس کی زیر قیادت بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ موجودہ چیف جسٹس جسٹس سنجیو کھنہ 13 مئی کو سبکدوش ہو رہے ہیں، جن کے بعد جسٹس بی آر گووائی 14 مئی کو ملک کے 51ویں چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔ اسی کے تحت 15 مئی کو اس حساس معاملے کی اگلی سماعت متوقع ہے۔پیر کے روز جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل بینچ نے سماعت کے دوران مرکز کی طرف سے داخل کردہ حلف نامے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "عبوری حکم دینے کا یہ وقت نہیں، معاملے کی جلد سماعت ضروری ہے۔" چیف جسٹس نے واضح کیا کہ وہ ریٹائرمنٹ سے قبل کوئی فیصلہ محفوظ نہیں رکھنا چاہتے، لہٰذا کیس نئی بینچ کو منتقل کیا جا رہا ہے۔اس موقع پر سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت سے کہا، "ہم چاہتے تھے کہ معاملہ آپ ہی کی سربراہی میں آگے بڑھے، مگر چونکہ وقت کم ہے، ہم زبردستی نہیں کر سکتے۔"واضح رہے کہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں متعدد عرضیاں داخل کی گئی ہیں، جن میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر و رکن پارلیمان اسدالدین اویسی کی عرضی بھی شامل ہے۔ ان عرضیوں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مذکورہ قانون آئینی اصولوں، بالخصوص اقلیتوں کے مذہبی و املاک کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔مرکز نے 17 اپریل کو عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ 5 مئی تک کوئی نئی تقرری وقف بورڈ یا مرکزی وقف کونسل میں نہیں کی جائے گی اور نہ ہی وقف املاک کو ڈی نوٹیفائی کیا جائے گا، جس میں "وقف بایوزر" کی املاک بھی شامل ہیں۔ "وقف بایوزر" ان جائیدادوں کو کہا جاتا ہے جو طویل عرصے سے عبادت یا فلاحی مقاصد کے لیے استعمال میں رہی ہوں، خواہ ان کا رسمی اعلان وقف نہ ہوا ہو۔مرکز نے 25 اپریل کو داخل کردہ حلف نامے میں دعویٰ کیا ہے کہ ترمیمی قانون پارلیمنٹ کے مکمل غوروخوض کے بعد منظور ہوا ہے اور اسے روکنا عدالتی دخل اندازی کے مترادف ہوگا۔قانون 5 اپریل  کو صدر دروپدی مرمو کی منظوری کے بعد نافذ کیا گیا۔ لوک سبھا میں یہ بل 288 اراکین کی حمایت اور 232 کی مخالفت کے ساتھ منظور ہوا، جبکہ راجیہ سبھا میں 128 اراکین نے اس کے حق اور 95 نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ڈی ایم کے، وائی ایس آر کانگریس، بائیں بازو کی جماعتوں، مختلف مسلم اداروں اور این جی اوز نے اس قانون کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا ہے۔