Lingayat Leaders at War Over Communal Slur by Suspended BJP MLA یتنال کے گستاخانہ بیان پر پاٹل کا استعفیٰ، کاشپنور کی للکار

گستاخانہ بیان پر سیاسی زلزلہ

یتنال کے خلاف شدید ردعمل، شیو آنند پاٹل کا استعفیٰ، کاشپنور کا سخت وار

الکل، 2 مئی (سلیمان چوبدار)

وجے پورہ سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے معطل شدہ رکن اسمبلی بسونا گوڈا یتنال کی جانب سے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخانہ بیان نے نہ صرف مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا بلکہ ریاست کرناٹک کی سیاست میں شدید ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ ریاست کے مختلف حصوں میں مسلمانوں نے زبردست احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے یتنال کے بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کا پرزور مطالبہ کیا۔یہ تنازعہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب یتنال نے ان ہی کے خلاف منعقدہ ایک حالیہ احتجاجی ریلی میں شرکت کرنے پر ریاستی وزیر شیو آنند پاٹل اور ہنگند سے کانگریس کے ایم ایل اے وجے آنند کاشپنور کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے دونوں کو چیلنج کرتے ہوئے اشتعال انگیز لہجے میں کہا،"اگر تم واقعی ایک باپ کی اولاد ہو تو اسمبلی سے استعفیٰ دو اور میرے خلاف میدان میں آؤ۔ میں آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے کو تیار ہوں، ایک ہندو کا ووٹ بھی تمہیں نہیں ملے گا۔ تم پاکستانی ہو، اور میں تمہیں پاکستانی مٹی میں دفن کر دوں گا۔"یتنال کے ان توہین آمیز اور نفرت انگیز جملوں پر سیاسی حلقوں میں سخت ردعمل دیکھنے کو ملا۔ شیو آنند پاٹل نے چیلنج کا جواب دیتے ہوئے مشروط طور پر اسمبلی اسپیکر کو استعفیٰ پیش کر دیا اور کہا کہ"میں اپنا استعفیٰ دے چکا ہوں، اب میدان میں آؤ اور دیکھتے ہیں عوام کس کے ساتھ ہے۔"دوسری جانب وجے آنند کاشپنور نے سخت لب و لہجے میں یتنال کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ"میں کس کی اولاد ہوں، یہ ریاست کی عوام جانتی ہے۔ تمہاری زبان ہمیشہ غیرمہذب اور اشتعال انگیز رہی ہے۔ بی جے پی سے نکالا گیا شخص مجھے استعفیٰ دینے کا درس دیتا ہے؟ تم کیا ہو، یہ کرناٹک کی زمین جانتی ہے۔ اگر ہمت ہے تو پہلے خود استعفیٰ دو!"کاشپنور نے مزید کہا کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی، مسلمانوں کو بار بار نشانہ بنانا، اور معاشرے میں نفرت پھیلانا کسی مہذب سیاست دان کا نہیں بلکہ ایک بیمار ذہنیت کا عکاس ہے۔ انہوں نے یتنال کو "لنگایت برادری پر بدنما داغ" قرار دیا۔یہ معاملہ اب صرف ایک سیاسی تنازعہ نہیں رہا بلکہ شمالی کرناٹک کی بااثر پنجم سالی لنگایت برادری کے اندر سیاسی صف بندی اور لفظی جنگ میں بدل چکا ہے۔ ریاست کی سیاست پر اس کے اثرات نمایاں ہو چکے ہیں، اور آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ یہ رسا کشی کس سمت جاتی ہے اور یتنال کے خلاف عوامی اور قانونی ردعمل کیا رخ اختیار کرتا ہے۔